Saturday 9 May 2015

ہر درد پہن لینا ہر خواب میں کھو جانا

ہر درد پہن لینا، ہر خواب میں کھو جانا
کیا اپنی طبیعت ہے، ہر شخص کا ہو جانا
اِک شہر بسا لینا بِچھڑے ہوئے لوگوں کا
پھر شب کے جزیرے میں دل تھام کے سو جانا
موضوعِ سخن کچھ ہو، تا دیر اُسے تَکنا
ہر لفظ پہ رُک جانا، ہر بات پہ کھو جانا
آنا تو بِکھر جانا سانسوں میں مہک بن کر
جانا تو کلیجے میں کانٹے سے چبھو جانا
جاتے ہوئے چُپ رہنا ان بولتی آنکھوں کا
خاموش تکلم سے پلکوں کو بھِگو جانا
لفظوں میں اُتر آنا ان پھُول سے ہونٹوں کا
اِک لَمس کی خُوشبو کا پوروں میں سمو جانا
ہر شام عزائم کے کچھ محل بنا لینا
ہر صبح ارادوں کی دہلیز پہ سو جانا

اعتبار ساجد 

No comments:

Post a Comment