وفا میں اب یہ ہنر اختیار کرنا ہے
وہ سچ کہے نہ کہے اعتبار کرنا ہے
یہ تجھ کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہُوا
مجھے تو خیر تیرا انتظار کرنا ہے
ہوا کی زد میں جلانے ہیں آنسوؤں کے چراغ
وہ مسکرا کے نئے وسوسوں میں ڈال گیا
خیال تھا کہ اسے شرمسار کرنا ہے
مثالِ شاخِ برہنہ خزاں کی رُت میں کبھی
خود اپنے جسم کو بے برگ و بار کرنا ہے
تیرے فراق میں دن کس طرح کٹیں اپنے
کہ شغلِ شب تو ستارے شمار کرنا ہے
چلو یہ اشک ہی موتی سمجھ کے بیچ آئیں
کسی طرح تو ہمیں روزگار کرنا ہے
کبھی تو دل میں چھپے زخم بھی نمایاں ہوں
قبا سمجھ کے بدن تار تار کرنا ہے
خدا خبر، یہ کوئی ضد، کہ شوق ہے محسنؔ
خود اپنی جان کے دشمن سے پیار کرنا ہے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment