Sunday 3 May 2015

ملنے کی ہر آس کے پیچھے اندیکھی مجبوری تھی

مِلنے کی ہر آس کے پیچھے ان دیکھی مجبوری تھی
راہ میں دشت نہیں پڑتا تھا چار گھروں کی دوری تھی
آنکھوں کی تکمیل ہوئی یا خوابوں کی بے نوری تھی
رنگوں کی جھنکار کے پیچھے ہر تصویر ادھوری تھی
جذبوں کا دَم گھٹنے لگا ہے لفظوں کے انبار کے پیچھے
پہلے نشاں زَد کر لینا تھا جتنی بات ضروری تھی
تیری شکل کے ایک ستارے نے پَل بھر سرگوشی کی
شاید ماہ و سالِ وفا کی اتنی سی مزدوری تھی
شاخِ گماں کے افسانوں سے ناحق پھول ملول ہوا
صحنِ چمن تک خوشبو کی ہر لغزِش غیر شعوری تھی
پیار گیا تو کیسے مِلتے رنگ سے رنگ اور خواب سے خواب
ایک مکمل گھر کے اندر ہر تصویر ادھوری تھی
ایک غزال کو دور سے دیکھا اور غزل تیار ہوئی
سہمے سہمے سے لفظوں میں ہلکی سی کستوری تھی

غلام محمد قاصر

No comments:

Post a Comment