Tuesday 5 May 2015

دریا تو بل دکھائے گا اپنے بہاؤ کا

دریا تو بَل دکھائے گا اپنے بہاؤ کا
سہنا ہے اِک جہان کو صدمہ کٹاؤ کا
دنیا سے ڈر کے آئے تھے جس کی پناہ میں
چارہ نہیں اب اس کی ہوس سے بچاؤ کا
ہر لَو کو چاٹتی ہوئی بارش کی رات میں
روشن ہے اِک چراغ ابھی دل کے گھاؤ کا
اِک عمر سے ہمارا لہو رَت جگے میں ہے
کب آئے گا کہیں سے بلاوا الاؤ کا
یوسفؔ یہ کون ہم کو خلا میں اچھال کر
اندازہ کر رہا ہے زمیں کے کھچاؤ کا

یوسف حسن

No comments:

Post a Comment