راستہ کوئی، سفر کوئی، مسافت کوئی
پھر خرابی کی عطا ہو مجھے صورت کوئی
سارے دریا ہیں یہاں موج میں اپنی اپنی
میرے صحرا کو نہیں ان سے شکایت کوئی
جم گئی دُھول ملاقات کے آئینوں پر
مجھ کو اس کی نہ اسے میری ضرورت کوئی
میں نے دُنیا کو سدا دل کے برابر سمجھا
کام آئی نہ بزرگوں کی نصیحت کوئی
سُرمئی شام کے ہمراہ پرندوں کی قطار
دیکھنے والوں کی آنکھوں کو بشارت کوئی
بُجھتی آنکھوں کو کسی نُور کے دریا کی تلاش
ٹُوٹتی سانس کو زنجیر ، ضرورت کوئی
تُو نے ہر نخل میں کچھ ذوقِ نمو رکھا ہے
اے خُدا! میرے پنپنے کی علامت کوئی
پھر خرابی کی عطا ہو مجھے صورت کوئی
سارے دریا ہیں یہاں موج میں اپنی اپنی
میرے صحرا کو نہیں ان سے شکایت کوئی
جم گئی دُھول ملاقات کے آئینوں پر
مجھ کو اس کی نہ اسے میری ضرورت کوئی
میں نے دُنیا کو سدا دل کے برابر سمجھا
کام آئی نہ بزرگوں کی نصیحت کوئی
سُرمئی شام کے ہمراہ پرندوں کی قطار
دیکھنے والوں کی آنکھوں کو بشارت کوئی
بُجھتی آنکھوں کو کسی نُور کے دریا کی تلاش
ٹُوٹتی سانس کو زنجیر ، ضرورت کوئی
تُو نے ہر نخل میں کچھ ذوقِ نمو رکھا ہے
اے خُدا! میرے پنپنے کی علامت کوئی
اسعد بدایونی
No comments:
Post a Comment