چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا
دلِ مشتاقؔ ٹھہر جا، وہی منظر آیا
میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سناٹے میں
کیوں تِری یاد کا بادل میرے سر پر آیا
بجھ گئی رونقِ پروانہ، تو محفل چمکی
سو گئے اہلِ تمنا تو ستمگر آیا
یار سب جمع ہوئے رات کی تاریکی میں
کوئی رو کر، تو کوئی بال بنا کر آیا
دلِ مشتاقؔ ٹھہر جا، وہی منظر آیا
میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سناٹے میں
کیوں تِری یاد کا بادل میرے سر پر آیا
بجھ گئی رونقِ پروانہ، تو محفل چمکی
سو گئے اہلِ تمنا تو ستمگر آیا
یار سب جمع ہوئے رات کی تاریکی میں
کوئی رو کر، تو کوئی بال بنا کر آیا
احمد مشتاق
No comments:
Post a Comment