Monday 4 May 2015

مرا ہر لفظ بے توقیر رہنے کے لئے ہے

مِرا ہر لفظ بے توقیر رہنے کے لیے ہے
مِرا ہر خوف دامن گیر رہنے کے لیے ہے
میں جس شہرِ جمال آثار کا مارا ہوا ہوں
وہ سارا شہر بے تعمیر رہنے کے لیے ہے
میں ایسے خواب کی پاداش میں معتوب ٹھہرا
جو ساری عمر بے تعبیر رہنے کے لیے ہے
ذرا سی دیر میں بُجھ جائیں گے سب مہر و مہتاب
یہ دعویٰ کیا، کہ ہر تنویر رہنے کے لیے ہے
ذرا سی دیر میں دُھندلا کے رہ جائے گا ہر نقش
گُماں یہ تھا، کہ ہر تصویر رہنے کے لیے ہے
نہ میری آگ کی شعلگی باقی رہے گی
نہ میری خاک کی تاثیر رہنے کے لیے ہے
نہ یہ آب و ہوا ہے شہرِ جسم و جاں دوامی
نہ میرے درد کی جاگیر رہنے کے یے ہے
نہ اقلیمِ ہُنر میں عظمتِ غالبؔ سلامت
نہ اعجازِ کلامِ میرؔ رہنے کے لیے ہے
کہیں محفوظ ہے لوحِ فنا پر ایک تحریر
بالآخر اِک وہی تحریر رہنے کے لیے ہے

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment