اب کے بچھڑا ہے تو کچھ ناشادماں وہ بھی تو ہے
دھوپ ہم پر ہی نہیں، بے سائباں وہ بھی تو ہے
شکوۂ بیدادِ موسم اس سے کیجیے بھی تو کیوں
کیا کرے وہ بھی کہ زیرِ آسماں وہ بھی تو ہے
اور اب کیا چاہتے ہیں لوگ، دیکھیں تو سہی
دربدر ہم ہی نہیں، بے خانماں وہ بھی تو ہے
ایک ہی دستک جہاں چونکائے رکھے ساری عمر
ایک اندازِ شکستِ جسم و جاں وہ بھی تو ہے
اس طرف بھی اِک نظر اے راہروِ منزل نصیب
وہ جو منزل پر لُٹا ہے، کارواں وہ بھی تو ہے
دھوپ ہم پر ہی نہیں، بے سائباں وہ بھی تو ہے
شکوۂ بیدادِ موسم اس سے کیجیے بھی تو کیوں
کیا کرے وہ بھی کہ زیرِ آسماں وہ بھی تو ہے
اور اب کیا چاہتے ہیں لوگ، دیکھیں تو سہی
دربدر ہم ہی نہیں، بے خانماں وہ بھی تو ہے
ایک ہی دستک جہاں چونکائے رکھے ساری عمر
ایک اندازِ شکستِ جسم و جاں وہ بھی تو ہے
اس طرف بھی اِک نظر اے راہروِ منزل نصیب
وہ جو منزل پر لُٹا ہے، کارواں وہ بھی تو ہے
افتخار عارف
No comments:
Post a Comment