بے پر کی کوئی بات نہیں چاہیے مجھ کو
تقریر مساوات نہیں چاہیے مجھ کو
یہ لفظ ہیں، لفظوں سے کہیں بھوک مٹی ہے
منشور کی سوغات نہیں چاہیے مجھ کو
مخلص ہو تو تقسیم کرو زر کو ابھی سے
مزدور ہوں، محنت کا صلہ مانگ رہا ہوں
حق دیجئے، خیرات نہیں چاہیے مجھ کو
مُردوں کی طرح جس میں، مرا باپ جیا ہے
وہ صورتِ حالات نہیں چاہیے مجھ کو
جو صرف جھلکتے ہوئے دریاؤں پہ برسے
تنویر وہ برسات نہیں چاہیے مجھ کو
تنویر سپرا
No comments:
Post a Comment