Saturday 9 May 2015

اب دم بخود ہیں نبض کی رفتار دیکھ کر

اب دَم بخود ہیں نبض کی رفتار دیکھ کر
تم ہنس رہے ہو، حالتِ بیمار دیکھ کر
سودا وہ کیا کرے گا خریدار دیکھ کر
گھبرا گیا جو گرمئ بازار دیکھ کر
اللہ! تیرے ہاتھ ہے اب آبروئے شوق
دَم گھُٹ رہا ہے وقت کی رفتار دیکھ کر
دیتا کہاں ہے وقت پڑے پر کوئی بھی ساتھ
ہم کو مصیبتوں میں گرفتار دیکھ کر
آتے ہیں میکدے کی طرف سے جنابِ شیخ
سرگوشیاں ہیں، لغزشِ رفتار دیکھ کر
غیروں نے غیر جان کے ہم کو اُٹھا دیا
بیٹھے جہاں بھی سایۂ دیوار دیکھ کر
آتے ہیں بزمِ یاران میں پہچان ہی گیا
مےخوار کی نگاہ کو مے خوار دیکھ کر
اس مَدھ بھری نگاہ کی اللہ رے کشِش
سو بار دیکھنا پڑا ایک بار دیکھ کر
تم رہنمائے وقت سہی پھر بھی چند گام
چلنا پڑے گا وقت کی رفتار دیکھ کر
وقتِ سحر، گزر گئی کیا کیا نہ پوچھئے
گردن میں ان کی سُوکھے ہوئے ہار دیکھ کر
تلچھَٹ مِلا کے دیتا ہے رِندوں کو ساقیا
ساغر پٹک نہ دے کوئی ہُشیار دیکھ کر
بسملؔ کو کیا ہے چادرِ رحمت رسولؐ کی
سائے میں لے ہی لے گی گنہگار دیکھ کر

بسمل عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment