Monday 11 May 2015

اکیلے ہیں وہ اور جھنجلا رہے ہیں

اکیلے ہیں وہ اور جھنجلا رہے ہیں
مِری یاد سے جنگ فرما رہے ہیں
الٰہی! مِرے دوست ہوں خیریت سے
یہ کیوں گھر میں پتھر نہیں آ رہے ہیں
یہ کیسی ہوائے ترقی چلی ہے
دِیے تو دِیے، دل بجھے جا رہے ہیں
بہت خوش ہیں گستاخیوں پر ہماری
بظاہر جو برہم نظر آ رہے ہیں
بہشتِ تصور کے جلوے ہیں، میں ہوں
جدائی سلامت، مزے آ رہے ہیں
قیامت کے آنے میں رِندوں کو شک تھا
جو دیکھا، تو واعظ چلے آ رہے ہیں
بہاروں میں بھی مے سے پرہیز، توبہ
خمارؔ! آپ کافر ہوئے جا رہے ہیں

خمار بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment