Saturday 9 May 2015

اب رہا کیا ہے جو اب آئے ہیں آنے والے

اب رہا کیا ہے جو اب آئے ہیں آنے والے
جان پر کھیل چکے جان سے جانے والے
یہ نہ سمجھے تھے کہ یہ دن بھی ہیں آنے والے
انگلیاں ہم پہ اٹھائیں گے اٹھانے والے
کون سمجھائے، نہ اِٹھلا کے سرِ رہ چلیے
ہیں یہ انداز گنہ گار بنانے والے
پوچھنے تک کو نہ آیا کوئی اللہ، اللہ
تھک گئے پاؤں کی زنجیر بجانے والے
کہیں رونا نہ پڑے تجھ کو زمانے کے ساتھ
ارے او وقت کی جھنکار پر گانے والے
آپ اندازِ نظر اپنا بدلتے ہی نہیں
اور برے بنتے ہیں بے چارے زمانے والے
پوچھتی ہے در و دیوار سے بیمار کی آنکھ
اب کہاں ہیں وہ مِرے ناز اٹھانے والے
بخدا بھول گئے اپنی مصیبت بسملؔ
یاد جب آئے محمدؐ کے گھرانے والے

بسمل عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment