Saturday 9 May 2015

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اے شہیدِ مُلک و مِلت! میں تِرے اوپر نثار
لے تِری ہِمّت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے
وائے قسمت پاؤں کی اے ضُعف کچھ چلتی نہیں
کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے
رَہروِ راہِ محبت! رِہ نہ جانا راہ میں
لذّتِ صحرا نوردی دورئ منزل میں ہے
شوق سے راہِ محبت کی مصیبت جھَیل لے
اِک خوشی کا راز پنہاں جادۂ منزل میں ہے
آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار
آئیں وہ، شوقِ شہادت جن کے جن کے دل میں ہے
مرنے والو! آؤ اب گردن کٹاؤ شوق سے
یہ غنیمت وقت ہے، خنجر کفِ قاتل میں ہے
مانعِ اظہار تم کو ہے حیا، ہم کو ادب
کچھ تمہارے دل کے اندر کچھ ہمارے دل میں ہے
مے کدہ سُنسان، خُم الٹے پڑے ہیں، جام چُور
سرنِگوں بیٹھا ہے ساقی! جو تِری محفل میں ہے
وقت آنے دے، دِکھا دیں گے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیوں بتائیں، کیا ہمارے دل میں ہے
اب نہ اگلے وَلوَلے ہیں اور نہ وہ ارماں کی بھیڑ
صرف مِٹ جانے کی اِک حسرت دلِ بِسملؔ میں ہے

بسمل عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment