Saturday, 2 May 2015

یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا

یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا
درخت کاٹ لئے، سائبان بیچ دیا
دری لپیٹ کے رکھ دی، بساط الٹ ڈالی
چراغ توڑ دئیے، شمع دان بیچ دیا
خزاں کے ہاتھ خزاں کے نیازمندوں نے
نوائے موسمِ گُل کا نشان بیچ دیا
اٹھا جو شور تو اہلِ ہوس نے گھبرا کر
زمین لیز پہ دے دی، کسان بیچ دیا
یہی ہے بھوک کا عالم تو دیکھنا اِک دن
کہ ہم نے دھوپ بھرا آسمان بیچ دیا

احمد مشتاق

No comments:

Post a Comment