یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا
درخت کاٹ لئے، سائبان بیچ دیا
دری لپیٹ کے رکھ دی، بساط الٹ ڈالی
چراغ توڑ دئیے، شمع دان بیچ دیا
خزاں کے ہاتھ خزاں کے نیازمندوں نے
نوائے موسمِ گُل کا نشان بیچ دیا
اٹھا جو شور تو اہلِ ہوس نے گھبرا کر
زمین لیز پہ دے دی، کسان بیچ دیا
یہی ہے بھوک کا عالم تو دیکھنا اِک دن
کہ ہم نے دھوپ بھرا آسمان بیچ دیا
درخت کاٹ لئے، سائبان بیچ دیا
دری لپیٹ کے رکھ دی، بساط الٹ ڈالی
چراغ توڑ دئیے، شمع دان بیچ دیا
خزاں کے ہاتھ خزاں کے نیازمندوں نے
نوائے موسمِ گُل کا نشان بیچ دیا
اٹھا جو شور تو اہلِ ہوس نے گھبرا کر
زمین لیز پہ دے دی، کسان بیچ دیا
یہی ہے بھوک کا عالم تو دیکھنا اِک دن
کہ ہم نے دھوپ بھرا آسمان بیچ دیا
احمد مشتاق
No comments:
Post a Comment