Saturday 9 May 2015

مجھے ملنے جب آیا، ساتھ پہرے دار لے آیا

مجھے مِلنے جب آیا، ساتھ پہرے دار لے آیا
وہ خُود تلوار تھا، اِک دوسری تلوار لے آیا
کہیں مل بیٹھتے ہم، گفتگو آرام سے کرتے
انا کی بے سبب وہ بیچ میں دیوار لے آیا
مِری پسپائی ناممکن تھی، لیکن میں بھی کیا کرتا
مِرا دشمن نہتے میرے سب سالار لے آیا
وہ پہلے کسمسایا، ذکرِ احساس مروت پر
پھر اپنی گفتگو میں اپنا کاروبار لے آیا
سخن کے گوہرِ تاباں کی ارزانی کا یہ صدمہ
ہم ایسے گوشہ گیروں کو سرِ بازار لے آیا
یہاں پہلے ہی کچھ جاں سوختہ بیٹھے تھے آزُردہ
میں کس محفل میں اپنے دل جلے اشعار لے آیا

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment