Saturday, 9 May 2015

خزاں کے جانے سے ہو یا بہار آنے سے

خِزاں کے جانے سے ہو یا بہار آنے سے
چمن میں پھُول کھِلیں گے کسی بہانے سے
وہ دیکھتا رہے مُڑ مُڑ کے سُوئے دَر کب تک
جو کروٹیں بھی بدلتا نہیں ٹھکانے سے
اُگل نہ سنگِ ملامت، خُدا سے ڈر ناصح
مِلے گا کیا تُجھے شیشوں کے ٹُوٹ جانے سے
زمانہ آپ کا ہے، اور آپ اس کے ہیں
لڑائی مَول لیں ہم مُفت کیوں زمانے سے
خُدا کا شُکر سویرے سے ہی آ گیا قاصِد
میں بچ گیا شبِ فُرقت کے ناز اُٹھانے سے
میں کچھ کہوں نہ کہوں کہہ رہی ہے خاکِ جبِیں
کہ اس جبِیں کو ہے نِسبت اِک آستانے سے
قیامت آئے، قیامت سے میں نہیں ڈرتا
اُٹھا تو دے کوئی پردہ کسی بہانے سے
خبر بھی ہے تُجھے آئینہ دیکھنے والے
کہاں گیا ہے دوپٹّہ سرک کے شانے سے
یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہوئی بسملؔ
نہ رو سکے نہ کبھی ہنس سکے ٹھِکانے سے

بسمل عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment