Saturday 9 May 2015

رخ پہ گیسو جو بکھر جائیں گے

رُخ پہ گیسُو جو بِکھر جائیں گے
ہم اندھیرے میں کِدھر جائیں گے
اپنے شانے پہ نہ زُلفیں چھوڑو
دل کے شیرازے بِکھر جائیں گے
یار آیا نہ اگر وعدے پر
ہم تو بے موت کے مر جائیں گے
اپنے ہاتھوں سے پِلا دے ساقی
رِند اِک گھُونٹ میں تَر جائیں گے
قافلے وقت کے رَفتہ رَفتہ
کسی منزل پہ ٹھہر جائیں گے
مُسکرانے کی ضرورت کیا ہے
مرنے والے یونہی مر جائیں گے
ہو نہ مایُوس خُدا سے بسملؔ
یہ بُرے دن بھی گُزر جائیں گے

بسمل عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment