Sunday, 10 May 2015

میں تو سایہ ہوں گھٹاؤں سے اترنے والا

میں تو سایہ ہوں گھٹاؤں سے اترنے والا
ہے کوئی پیاس کے صحرا سے گزرنے والا
تُو سمجھتا ہے مجھے حرفِ مکرّر، لیکن
میں صحیفہ ہوں تِرے دل پہ اترنے والا
تُو مجھے اپنی ہی آواز کا پابند نہ کر
میں تو نغمہ ہوں فضاؤں میں بِکھرنے والا
اے بدلتے ہوئے موسم کے گریزاں پیکر
عکس دے جا کوئی آنکھوں میں ٹھہرنے والا
جا رہا ہے تِرے ہونٹوں کی تمنّا لے کر
زندگی بھر تِری آواز پہ مرنے والا
میں ہوں دیوار پہ لِکھا ہوا کب سے، لیکن
کوئی پڑھتا نہیں رَستے سے گزرنے والا

مدحت الاختر

No comments:

Post a Comment