Friday 8 May 2015

اس عہد کے مزاج سے ڈر جانا چاہیے

اِس عہد کے مزاج سے ڈر جانا چاہیے
کہنا ہو سچ تو کہہ کے مُکر جانا چاہیے
جلتی ہیں روز جس کے اشارے پہ بستیاں
اس آنکھ تک دھوئیں کا اثر جانا چاہیے
ہم وہ سفر نصیب ہیں جن کو خبر نہیں
کسی سمت جا رہے ہیں، کدھر جانا چاہیے
ہارا ہے جسم، حوصلہ ہارا نہیں ابھی
سو اس طرح نہیں ہے کہ مر جانا چاہیے
کہتے ہیں بے حِسی یہاں پھرتی ہے رات بھر
دن دن میں اس جگہ سے گزر جانا چاہیے
صحرا کی چاندنی کے بلاوے پر اس طرح
اچھا نہیں ہے جانا، مگر جانا چاہیے
اظہرؔ مسافروں کو ضرورت ہے سائے کی
صحرائے بے شجر میں ٹھہر جانا چاہیے​

اظہر ادیب

No comments:

Post a Comment