Wednesday, 6 May 2015

ہنسی لبوں پہ سجائے اداس رہتا ہے

ہنسی لبوں پہ سجائے اداس رہتا ہے
یہ کون ہے جو میرے گھر کے پاس رہتا ہے
یہ اور بات کہ ملتا نہیں کوئی اس سے
مگر وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے
جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سورج
اسی جگہ وہ ستارہ شناس رہتا ہے
گزر رہا ہوں میں سوداگروں کی بستی سے
بدن پہ دیکھئے کب تک لباس رہتا ہے
لکھی ہے کس نے یہ تحریر ریگِ ساحل پر
بہت دنوں سے سمندر اداس رہتا ہے
میں وحشتوں کے سمندر میں بھی ہوں کہاں تنہا
یہی گماں ہے، کوئی آس پاس رہتا ہے
میں گفتگو کے ہر انداز کو سمجھتا ہوں
کہ میری ذات میں لہجہ شنناس رہتا ہے
وہ فاصلوں میں بھی رکھتا ہے رنگ قربت کے
نظر سے دور سہی، دل کے پاس رہتا ہے
جب ان سے گفتگو کرتا ہے کوئی بھی اعجازؔ
اِک التماس پسِ التماس رہتا ہے

اعجاز​ رحمانی

No comments:

Post a Comment