Monday 11 May 2015

ہر ایک زخم کا چہرہ گلاب جیسا ہے

ہر ایک زخم کا چہرہ گلاب جیسا ہے
مگر یہ جاگتا منظر بھی خواب جیسا ہے
یہ تلخ تلخ سا لہجہ، یہ تیز تیز سی بات
مزاجِ یار کا عالم شراب جیسا ہے
مِرا سخن بھی چمن در چمن شفق کی پھوار
تِرا بدن بھی مہکتے گلاب جیسا ہے
بڑا طویل، نہایت حسِیں، بہت مبہم
مِرا سوال تمہارے جواب جیسا ہے
تُو زندگی کے حقائق کی تہ میں یوں نہ اُتر
کہ اس ندی کا بہاؤ چناب جیسا ہے
تِری نظر ہی نہیں حرف آشنا، ورنہ
ہر ایک چہرہ یہاں پر کتاب جیسا ہے
چمک اُٹھے تو سمندر، بُجھے تو ریت کی لہر
مِرے خیال کا دریا سراب جیسا ہے
تِرے قریب بھی رہ کر نہ پا سکوں تجھ کو
تِرے خیال کا جلوہ حباب جیسا ہے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment