Sunday, 10 May 2015

عشق بتاں کا لے کے سہارا کبھی کبھی

عشقِ بُتاں کا لے کے سہارا کبھی کبھی
اپنے خدا کو ہم نے پکارا کبھی کبھی
آسودۂ خاطر ہی نہیں مطمحِ وفا
غم بھی کِیا ہے ہم نے گوارہ کبھی کبھی
اِس اِنتہائے ترکِ محبت کے باوجود
ہم نے لِیا ہے نام تمہارا کبھی کبھی
بہکے تو میکدے میں نمازوں پہ آ گئے
یوں عاقبت کو ہم نے سنوارا کبھی کبھی
طُوفاں کا خوف ہے ابھی شاید کرشمہ کار
آتا ہے سامنے جو کِنارا کبھی کبھی
تنہا روی نے رکھی ہمارے جنوں کی لاج
گو اہلِ کارواں نے پکارا کبھی کبھی
اب کیا کہیں دلِ مُتَلوّن مِزاج کو
اکثر یہ آپ کا ہے، ہمارا کبھی کبھی
پیہم سِتم سے عشق کی تسکِین ہو نہ جائے
اے دوست! اِلتفات، خُدا را کبھی کبھی
فریادِ غم سے عرشؔ سنبھلتا ہے دل، مگر
لیتے ہے اہلِ دِل یہ سہارا کبھی کبھی 

عرش ملسیانی
پنڈت بال مکند

No comments:

Post a Comment