Saturday, 9 May 2015

باتوں باتوں میں بچھڑنے کا اشارہ کر کے

باتوں باتوں میں بِچھڑنے کا اِشارہ کر کے
خود بھی رویا وہ بہت ہم سے کنارہ کر کے
سوچتا رہتا ہوں تنہائی میں انجامِ خلوص
پھر اسی جُرمِ محبت کو دوبارہ کر کے
جگمگا دی ہیں تیرے شہر کی گلیا‌ں میں نے
اپنے ہر اشک کو پلکوں پہ ستارہ کر کے
دیکھ لیتے ہیں چلو حوصلہ اپنے دل کا
اور کچھ روز تیرے ساتھ گزارہ کر کے
ایک ہی شہر میں رہنا، مگر مِلنا نہیں
دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارا کر کے

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment