Wednesday, 6 May 2015

مجھے بھی وحشت صحرا پکار میں بھی ہوں

مجھے بھی وحشتِ صحرا پکار میں بھی ہوں
تِرے وصال کا امیدوار میں بھی ہوں
پرِند کیوں مِری شاخوں سے خوف کھاتے ہیں
کہ اِک درخت ہوں اور سایہ دار میں بھی ہوں
مجھے بھی حکم مِلے، جان سے گزرنے کا
میں انتظار میں ہوں، شہسوار میں بھی ہوں
بہت سے نیزے یہاں خود مِری تلاش میں ہیں
یہ دشت جس میں برائے شکار میں بھی ہوں
ہوا چلے تو لرزتی ہے میری لَو کتنی
میں اِک چراغ ہوں اور بے قرار میں بھی ہوں 

اسعد بدایونی

No comments:

Post a Comment