Friday 8 May 2015

عشاق بہت ہیں ترے بیمار بہت ہیں

عشاق بہت ہیں، تِرے بیمار بہت ہیں
تجھ حٗسنِ دلآرام کے حقدار بہت ہیں
اے سنگ صفت! آ کے سرِ بام ذرا دیکھ
اِک ہم ہی نہیں، تیرے طلبگار بہت ہیں
بے چین کیے رکھتی ہے ہر آن یہ دل کو
کم بخت محبت کے بھی آزار بہت ہیں
مٹی کے کھلونے ہیں تِرے ہاتھ میں ہم لوگ
اور گِر کے بِکھر جانے کے آثار بہت ہیں
کس سمت چلیں، کون سی دہلیز پہ بیٹھیں
اس شہر میں کچھ بھی ہو، رِیا کار بہت ہیں
ڈھونڈو تو کوئی سچ کا پیمبر نہیں مِلتا
دیکھو تو یہاں صاحبِ کردار بہت ہیں
اے ربِ ہُنر! چشمِ عنایات اِدھر بھی
ہر چند کہ ہم تیرے گناہگار بہت ہیں
خاورؔ اسے پا لینے میں کھو دینے کا ڈر ہے
اندیشہ و حسرت کے میاں خار بہت ہیں

ایوب خاور

No comments:

Post a Comment