ہر بول اس کا روح کے آزار چاٹ لے
جس کی زبان خاکِ درِ یار چاٹ لے
گلچیں نہ پا سکا کبھی جوہر پہ دسترس
مشکل ہے کوئی پھول کی مہکار چاٹ لے
ملتا ہے اور تشنگئ راہرو کو چین
رہتا ہے زلفِ یار تری چھاؤں میں یہ دل
جب تیز دھوپ سایۂ اشجار چاٹ لے
مٹتا نہیں کسی سے بھی رسوائیوں کا داغ
کس کی مجال، سرخئ اخبار چاٹ لے
مل پائے ایسے قاتلِ شاطر کا کیا ثبوت
جو قتل کر کے خنجرِ خونخوار چاٹ لے
ایسے میں کیا پٹے کوئی سودا سرِ دُکاں
بائع جو اٹھ کے مغزِ خریدار چاٹ لے
اے خوش قدم! ذرا نظرِ بد سے ہوشیار
ایسا نہ ہو کہ شوخئ رفتار چاٹ لے
اس خوف سے وہ رکھتے ہیں زلفیں لپیٹ کر
افعی کہیں نہ زلف کا رخسار چاٹ لے
واعظ کی بات دل میں جو اترے تو کس طرح
جب کان اس کی کثرتِ گفتار چاٹ لے
اِترائیے نہ شوکتِ فانی پہ اس قدر
دیمک کہیں نہ کرسئ سرکار چاٹ لے
منکر جو ہو نؔصیر کے فضل و کمال کا
کہہ دو اسے، نوشتۂ دیوار چاٹ لے
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment