Wednesday, 30 January 2019

اہل نظر کی آنکھ میں تاج وہ کلاہ کیا

اہلِ نظر کی آنکھ میں تاج وہ کلاہ کیا
سایہ ہو جن پہ درد کا، ان کو پناہ کیا؟
ٹھہرا ہے اک نگاہ پہ سارا مقدمہ
کیسے وکیل، کون سا منصف، گواہ کیا
کرنے لگے ہو آٹھوں پہر کیوں خدا کو یاد؟
اس بت سے ہو گئی ہے کوئی رسم و راہ کیا؟
اے ربِ عدل! تُو مِری فردِ عمل کو چھوڑ
بس یہ بتا کہ اس میں ہے میرا گناہ کیا؟
سارے فراق سال دھواں بن کے اڑ گئے
ڈالی ہمارے حال پہ اس نے نگاہ کیا
کیا دل کے بعد آبروئے دل بھی رول دیں
دکھلائیں اس کو جا کے کہ یہ حالِ تباہ کیا؟
جو جِتنا کم بساط ہے، اتنا ہے معتبر
یارو! یہ اہلِ فقر کی ہے بارگاہ، کیا
کیسے کہیں کہ کر گئی اک سانحے کے بیچ
جادو بھری وہ آنکھ، وہ جھکتی نگاہ کیا؟
ہر شے کی مثل ہو گی، کوئی بیکسی کی حد؟
اس شہرِِ بے ہنر کا ہے دن بھی سیاہ کیا
رستے میں تھیں غنیم کے پھولوں کی پتیاں
سالار بِک گئے تھے تو کرتی سپاہ کیا
دل میں کوئی امید نہ آنکھوں میں روشنی
نکلے گی اس طرح کوئی جینے کی راہ کیا؟
امجد نزولِ شعر کے کیسے بنیں اصول
سیلاب کے لیے کوئی ہوتی ہے راہ کیا

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment