Saturday, 19 January 2019

جب خزاں آئے تو پتے نہ ثمر بچتا ہے

جب خزاں آۓ تو پتے نہ ثمر بچتا ہے
خالی جھولی لیے ویران شجر بچتا ہے
نکتہ چیں! شوق سے دن رات مرے عیب نکال
کیونکہ جب عیب نکل جائیں، ہنر بچتا ہے
سارے ڈر بس اسی ڈر سے ہیں کہ کھو جائے نہ یار
یار کھو جائے تو پھر کون سا ڈر بچتا ہے
روز پتھراؤ بہت کرتے ہیں دنیا والے
روز مر مر کے مِرا خواب نگر بچتا ہے
غم وہ رستہ ہے کہ شب بھر اسے طے کرنے کے بعد
صبحدم دیکھیں تو اتنا ہی سفر بچتا ہے
بس یہی سوچ کے آیا ہوں تِری چوکھٹ پر
دربدر ہونے کے بعد اک یہی در بچتا ہے
اب مِرے عیب زدہ شہر کے شر سے صاحب
شاذ و نادر ہی کوئی اہلِ ہنر بچتا ہے
عشق وہ علم ریاضی ہے کہ جس میں فارس
دو سے جب ایک نکالیں تو صفر بچتا ہے

رحمان فارس

No comments:

Post a Comment