چشمِ بے خواب کو سامان بہت
رات بھر شہر کی گلیوں میں ہوا
ہاتھ میں سنگ لیے
خوف سے زرد مکانوں کے دھڑکتے دل پر
دستکیں دیتی چلی جاتی ہے
ہر طرف چیخ سی لہراتی ہے
ہیں مرے دل کے لیے درد کے عنوان بہت
درد کا نام سماعت کے لیے راحتِ جاں
دستِ بے مایہ کو زر
نقطۂ خاموش کو لفظ
خوابِ بیدار کو مکاں
درد کا نام میرے شہرِ خواہش کا نشاں
منزلِ رگِ رواں
درد کی راہ پر تسکین کے امکان بہت
چشمِ بے خواب کو سامان بہت
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment