نارسائی
رات اندھیری، بن ہے سُونا، کوئی نہیں ہے ساتھ
پون جھکولے پیڑ ہلائیں تھر تھر کانپیں پات
دل میں ڈر کا تیر چبھا ہے سینے پر ہے ہاتھ
رہ رہ کر سوچوں، یوں کیسے پوری ہو گی رات؟
برکھا رُت ہے اور جوانی، لہروں کا طوفان
کوئی نہیں جو بات سُجھاۓ، کیسے ہو سامان
بھگوان! مجھ کو راہ دکھا دے مجھ کو دے دے گیان
چپُو ٹوٹے، ناؤ پرانی دور ہے کھیون ہارا
بیری ہیں ندی کی موجیں اور پیتم اس پار
سن لے سن لے دکھ میں پکارے اک پریمی بیچارا
کیسے جاؤں کیسے پہنچوں کیسے جتاؤں پیار؟
کیسے اپنے دل سے مٹاؤں برہ اگن کا روگ
کیسے سجھاؤں پریم پہیلی کیسے کروں سنجوگ
بات کی گھڑیاں بیت نہ جائیں، دور ہے اس کا دیس
دور دیس ہے پیتم کا اور میں بدلے ہوں بھیس
میرا جی
No comments:
Post a Comment