ہوائے اہلِ دنیا کی نگہبانی میں رکھوں گا
دیا روشن کروں گا اور پیشانی میں رکھوں گا
اسے معلوم تو ہو تیرنا کیا ڈوبنا کیا ہے؟
کسی دن اس کو تندوتیز طغیانی میں رکھوں گا
کم از کم دھجیاں اڑنے سے حیرت تو نہیں ہونگی
مجھے عادت ہے آب و تاب چشم دل میں رہنے کی
سو تجھ کو بھی کسی نادیدہ حیرانی میں رکھوں گا
میں اپنی نیند اور آنکھیں تو پھینک آیا ہوں رستے میں
اب اپنا خواب بستر کی پریشانی میں رکھوں گا
نظرآتی ہوئی شے کو نظر لگتی ہے لوگوں کی
دفینے اب تجھے ملبوس عریانی میں رکھوں گا
دعا کا پھول بھی ہو گا لب اظہار پر عاطف
ہری ٹہنی بھی اس کی فاتحہ خوانی میں رکھوں گا
عاطف کمال رانا
No comments:
Post a Comment