Friday 25 August 2017

بیٹھے تھے لوگ پہلو بہ پہلو پیۓ ہوئے

بیٹھے تھے لوگ پہلو بہ پہلو پیے ہوئے 
اک ہم تھے تیری بزم میں آنسو پیے ہوئے 
دیکھا جسے بھی اس کی محبت میں مست تھا 
جیسے تمام شہر ہو دارو پیے ہوئے 
تکرار بے سبب تو نہ تھی رند و شیخ میں 
کرتے بھی کیا شراب تھے ہر دو پیے ہوئے 
پھر کیا عجب کہ لوگ بنا لیں کہانیاں 
کچھ میں نشے میں چور تھا کچھ تو پیے ہوئے 
یوں ان لبوں کے مس سے معطر ہوں جس طرح 
وہ نو بہار ناز تھا خوشبو پیے ہوئے 
یوں ہو اگر فرازؔ تو تصویر کیا بنے 
اک شام اس کے ساتھ لب جو پیے ہوئے 

احمد فراز

No comments:

Post a Comment