Tuesday 22 August 2017

کم و زیادہ کی اس کشمکش نے مار دیا

کم و زیادہ کی اس کشمکش نے مار دیا 
اسے اکائی مجھے میرے رش نے مار دیا
وہ لمبی عمر سمجھتا تھا غم کے سگرٹ کو
خبر ملی اسے پہلے ہی کش نے مار دیا
جدائی ہے کہ حسین و جمیل لڑکی ہے 
سب اہلِ عشق کو اس ماہ وش نے مار دیا
ہوا کے ہاتھ میں پیغامِ مرگ تھا کہ چراغ 
ابھی سنبھل ہی رہا تھا کہ غش نے مار دیا

عاطف کمال رانا

No comments:

Post a Comment