Wednesday, 30 August 2017

اس گھڑی اتنا ہی کافی ہے کہ جل تھل ہو جائے

اس گھڑی اتنا ہی کافی ہے کہ جل تھل ہو جائے
موج میں آیا ہوا اور بھی پاگل ہو جائے
میری وحشت سے یہاں بھیڑ لگی رہتی ہے 
شہر میں رم نہ کروں میں تو یہ جنگل ہو جائے
سن رہا ہوں، وہ مِرے دل سے نکل جائے گا
کیوں نہ اس شہر کا دروازہ مقفل ہو جائے
اتنی عجلت تو ہوا کو بھی نہیں ہے اے دوست 
پہلے ہر گھر کا چراغاں تو مکمل ہو جائے
راہرو! کیا یہ ضروری ہے کسی کاغذ پر 
میں کوئی لفظ لکھوں اور وہ دلدل ہو جائے
کون ہے وہ جسے درویش کہا جاتا ہے 
کس کی چادر کو دعا ہے کہ وہ بادل ہو جائے
ورنہ اس جھیل میں طوفان بھی آ سکتا ہے 
چاند سے کہہ دو مِری آنکھ سے اوجھل ہو جائے
اس نے رستے میں کئی پھول بچھا رکھے ہیں 
اب وہی شخص مسافر ہے جو پیدل ہو جائے

عاطف کمال رانا

No comments:

Post a Comment