اس گھڑی اتنا ہی کافی ہے کہ جل تھل ہو جائے
موج میں آیا ہوا اور بھی پاگل ہو جائے
میری وحشت سے یہاں بھیڑ لگی رہتی ہے
شہر میں رم نہ کروں میں تو یہ جنگل ہو جائے
سن رہا ہوں، وہ مِرے دل سے نکل جائے گا
اتنی عجلت تو ہوا کو بھی نہیں ہے اے دوست
پہلے ہر گھر کا چراغاں تو مکمل ہو جائے
راہرو! کیا یہ ضروری ہے کسی کاغذ پر
میں کوئی لفظ لکھوں اور وہ دلدل ہو جائے
کون ہے وہ جسے درویش کہا جاتا ہے
کس کی چادر کو دعا ہے کہ وہ بادل ہو جائے
ورنہ اس جھیل میں طوفان بھی آ سکتا ہے
چاند سے کہہ دو مِری آنکھ سے اوجھل ہو جائے
اس نے رستے میں کئی پھول بچھا رکھے ہیں
اب وہی شخص مسافر ہے جو پیدل ہو جائے
عاطف کمال رانا
No comments:
Post a Comment