کھل گئی گٹھڑی تو سب بارِ گراں مر جائے گا
استعارہ اس طرف مصرعہ وہاں مر جائے گا
اک ملاقاتی نکل آئے گا آتش دان سے
پھر شبِ ہجراں! تِرا کالا دھواں مر جائے گا
ڈس لیا ہے اک مسافر کو اچانک سانپ نے
دوست اب اتنی بھی کیا ہے رفتگاں کی بد دعا
اس طرح تو حلقۂ موجودگاں مر جائے گا
میں بھی کب زندہ رہوں گا اس کہانی کے بغیر
قصہ گو تُو بھی سنا کر داستاں مر جائے گا
کچھ نہیں ہوگا تِری ناؤ کو اس طوفان میں
لیکن اتنا ہے غرورِ بادباں مر جائے گا
پھر سے اک ٹہنی نکل آئے گی تازہ پھول کی
کون کہتا ہے مِرا نام و نشاں مر جائے گا
عاطف کمال رانا
No comments:
Post a Comment