بار ہا منظرِ حیرانی بنایا میں نے
آنکھ میں ریت بھری پانی بنایا میں نے
یوسفِ عشق تِرے سامنے رکھا ہے چراغ
آئینے یوں بھی تِرا ثانی بنایا میں نے
کیا ہوا میں نے اگر تیر نہیں برسائے
مضطرب خواہشیں صحرا میں پڑی رہنے دیں
غم زدہ غولِ بیابانی بنایا میں نے
دیر تک تجھ سے ملاقات کا رس پینا تھا
اس لئے بات کو طولانی بنایا میں نے
حکم آیا تھا کہ زنجیر کروں چاند کو میں
چاند کو اور بھی سیلانی بنایا میں نے
صبح سے شام تلک کتنی مشقت کی ہے
تب کہیں رزقِ پریشانی بنایا میں نے
کم سے کم رنگ تو آیا ہے مِرے چہرے پر
کچھ نہ کچھ تو زرِ تابانی بنایا میں نے
عاطف کمال رانا
No comments:
Post a Comment