Wednesday, 23 August 2017

یوں بھروسہ نہیں کسی پل کا

یوں بھروسہ نہیں کسی پل کا
اور ہے انتظار بھی کل کا
رات بھر جاگتی ہے تنہائی
چاہے بستر ملا ہو مخمل کا
بھولتی ہی نہیں تِری آنکھیں
یاد ہے بَل بھی تیرے آنچل کا
خوب مہمان داری کی، لیکن
تُو نے رکھا حساب پل پل کا
آدمی سے بڑا نہیں وحشی
جانور ہو کسی بھی جنگل کا
اس قدر تھی گھٹن خموشی میں
بات کرنے سے جی ہُوا ہلکا
کچھ ملاقات ہو گئی ہے آج
کیا ارادہ ہے آپ کا، کل کا

حسن کاظمی

No comments:

Post a Comment