دکان اور کی ہے، اختیار اس کا ہے
بہت دنوں سے یہی کاروبار اس کا ہے
بس اس کے نام کا سِکہ ڈھلا نہیں، ورنہ
وزیر اس کے ہیں سب شہریار اس کا ہے
کسی سے کچھ نہیں کہتا سوائے حرفِ دعا
دکھائے ایک جھلک اور لوٹ لے سب کچھ
نہ کوئی پھر بھی شکایت گزار اس کا ہے
پھر اس کی چھاؤں میں آرام کیوں نہیں آتا
درخت خواب اگر سایہ دار اس کا ہے
مدحت الاختر
No comments:
Post a Comment