Tuesday 22 August 2017

بہت دنوں سے یہی ہو رہا ہے آج ہی کیا

بہت دنوں سے یہی ہو رہا ہے آج ہی کیا
پلک جھپکتے بدل جائے تو سماج ہی کیا
نظر جھکا کے مگر سر اٹھا کے چلتے تھے
رہا نہ شہر کی گلیوں میں وہ رواج ہی کیا
لگائے بیٹھے رہو دوربین آنکھوں سے
ہمارے دیدہ ورو! تم کو کام کاج ہی کیا
کہاں گئے وہ کھلونے،  کتابیں، گلدستے
ملے گا ساری دکانوں میں اب اناج ہی کیا
ہمیں بھی چاہیے آنکھوں میں روشنی لیکن
بھرے ہوں خواب تو آنسو کی احتیاج ہی کیا

مدحت الاختر

No comments:

Post a Comment