بہت دنوں سے یہی ہو رہا ہے آج ہی کیا
پلک جھپکتے بدل جائے تو سماج ہی کیا
نظر جھکا کے مگر سر اٹھا کے چلتے تھے
رہا نہ شہر کی گلیوں میں وہ رواج ہی کیا
لگائے بیٹھے رہو دوربین آنکھوں سے
کہاں گئے وہ کھلونے، کتابیں، گلدستے
ملے گا ساری دکانوں میں اب اناج ہی کیا
ہمیں بھی چاہیے آنکھوں میں روشنی لیکن
بھرے ہوں خواب تو آنسو کی احتیاج ہی کیا
مدحت الاختر
No comments:
Post a Comment