میں تو سمجھا تھا زمانہ ہے پریشانی میں
یہ تو سب آئینہ خانہ ہے پریشانی میں
وہ کوئی اور شکایت تھی تھکی ہاری سی
یہ کوئی اور بہانہ ہے پریشانی میں
آنکھ روتی ہے کہیں اور ٹھکانہ کر کے
ان گرفتار پرندوں سے شکایت کیسی
ان کی ہر خواہشِ دانہ ہے پریشانی میں
اپنے ہی تیر و کماں اپنی ہی تلواریں ہیں
اپنا ہی جسم نشانہ ہے پریشانی میں
کیا وہ صندوق کھلا چھوڑ گیا ہے عاطف
سانپ کیوں زیرِ خزانہ ہے پریشانی میں
عاطف کمال رانا
No comments:
Post a Comment