Tuesday 22 August 2017

درد آنسو نہیں بنتا سو تبسم تو بنے

درد آنسو نہیں بنتا سو تبسم تو بنے
کوئی پیرایۂ آغاز تکلم تو بنے
ہے طبیعت میں سکوت ازلی حیرت سا
اس سمندر کی کوئی موج تلاطم تو بنے
کون منظور کرے نام کی دریا بخشی
میں سبو تک نہ بھروں گا کوئی قلزم تو بنے
کب سے دنیا نے پریشان مجھے رکھا ہے
اب یہ جنت نہیں بنتی تو جہنم تو بنے
روح اور جسم بناتے ہیں جھگڑ کے ہی مجھے
یہ عمارت کبھی بے نقش تصادم تو بنے
آخری لفظ ادا ہو گا زباں سے میری
میرا اظہار دل آزارئ مردم تو بنے

مدحت الاختر

No comments:

Post a Comment