درد آنسو نہیں بنتا سو تبسم تو بنے
کوئی پیرایۂ آغاز تکلم تو بنے
ہے طبیعت میں سکوت ازلی حیرت سا
اس سمندر کی کوئی موج تلاطم تو بنے
کون منظور کرے نام کی دریا بخشی
کب سے دنیا نے پریشان مجھے رکھا ہے
اب یہ جنت نہیں بنتی تو جہنم تو بنے
روح اور جسم بناتے ہیں جھگڑ کے ہی مجھے
یہ عمارت کبھی بے نقش تصادم تو بنے
آخری لفظ ادا ہو گا زباں سے میری
میرا اظہار دل آزارئ مردم تو بنے
مدحت الاختر
No comments:
Post a Comment