Thursday 31 August 2017

ہم نے جس رات

ہم نے جس رات

ہم نے جس رات تِرے ہجر کی دہلیز پر غم رکھا ہے
چاند حیران ہوا ہے
کہ بھلا کون چمکتا ہے افق کے اس پار
ہنس دیا کوئی ستارہ جو کبھی پلکوں پر
کہکشاں چونک اٹھی
کون کہاں ٹوٹ گرا
ہم نے جس رات تِری یاد کی دلیز پہ ویرانی رکھی
درد میں لپٹی ہوئی ویرانی
آسماں بول پڑا
کون ہوا اتنا اداس
کس نے اندوہ کی بارات میں حصہ ڈالا
کس نے رنگین کیا زخموں کو
ہم نے جس رات تِری آس کی دہلیز پہ دل رکھا ہے
کتنے مرجھائے ہوئے پھول مہک اٹھے ہیں
کتنے کمہلائے ہوئے پیڑ لہک اٹھے ہیں

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment