سن کر اس کی بات ہم چپ ہو گئے
دیکھ کر حالات ہم چپ ہو گئے
بادلوں کی گھن گرج اور بِجلیاں
آئی جب برسات ہم چپ ہو گئے
جب سمجھ آئی حقیقت دہر کی
دوستی کے روپ میں تھی مصلحت
جب مِلے دو ہاتھ ہم چپ ہو گئے
رت جگے ہم نے منائے عمر بھر
پھر وہ آئی رات ہم چپ ہو گئے
ہم نے باتیں کیں بہت لیکن حسن
تھی اک ایسی بات ہم چپ ہو گئے
حسن کاظمی
No comments:
Post a Comment