Wednesday 30 August 2017

دشت و ویراں میں کہیں کٹیا بسائے ہوئے لوگ

دشت و ویراں میں کہیں کٹیا بسائے ہوئے لوگ
دیکھ کس حال میں رہتے ہیں ستائے ہوئے لوگ
بارشیں یوں بھی سبھی زخم ہرے کرتی ہیں
اور یاد آ جاتے ہیں آنکھوں سے بہائے ہوئے لوگ
کیسے جائیں گے بھلا اب وہ تسلی کے بغیر
تیرے ملنے کو بڑی دور سے آئے ہوئے لوگ
میرے ہونٹوں سے چھلکنے لگے بے ساختہ نام
میری آنکھوں سے نکل آئے چھپائے ہوئے لوگ
مجھ کو یہ بات کسی طور بھی دیتی نہیں چین
مجھ سے روٹھے ہوئے رہتے ہیں منائے ہوئے لوگ

زین شکیل

No comments:

Post a Comment