گلشنِ ہستی ہمارے دم سے جب آباد ہے
پھر ہمارا ہر نفس کیوں مائلِ فریاد ہے
عندلیبِ باغ پر ہر روز اک افتاد ہے
وہ بھی دن آئے کہ دیکھوں قید میں صیاد ہے
ہے جہنم یہ جہاں حسساس انساں کے لیے
بے ضمیروں کو یہ دنیا جنتیں شداد ہے
جیسی لیلائیں ہیں ویسے چاہنے والے بھی ہیں
اب یہاں ہر شخص مجنوں ہر کوئی فرہاد ہے
رہنمائی ہے یہاں اب رہزنوں کے ہاتھ میں
رہبری کے واسطے ہر موڑ پر جلاد ہے
پہلے تھا غیروں کا غلام اور آج اپنوں ہی کا ہے
صرف کہنے کے لیے اب ہر غلام آزاد ہے
نظم کیسا، کیسے ناظم، اور کیا طرزِ حیات
🌜یہ خرابہ انتشارِ نَو پہ اب آباد ہے🌛
دیکھئے بھی اے رئیس اب یہ مکاں کب تک چلے
ملک میں جمہوریت کی ریت پر بنیاد ہے
رئیس جہانگیرآبادی
No comments:
Post a Comment