Sunday, 28 November 2021

یہی سچ ہے حقیت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

 یہی سچ ہے حقیت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

ہمیں تم سے محبت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

شب تاریک میں اکثر یہی محسوس ہوتا ہے

ہمیں تیری ضرورت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

تیری زلفیں، تیری آنکھیں، یوں تیرا مسکرا دینا

قیامت ہی قیامت ہے، مگر ہم کہہ نہیں سکتے

میری بے چینیاں ہر پل یہ مجھ سے پوچھ لیتی ہیں

یہ سب کس کی بدولت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

تیری قسمیں بھی جھوٹی تھیں تیرا وعدہ بھی جھوٹا تھا

پرانی تیری عادت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

رقیبوں سے میرے ملنا یوں تیرا گفتگو کرنا

خیانت ہے خیانت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

بیاں کس طرح ہو علوی ستم جو اس نے ڈھائے ہیں

بہت دشوار صورت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے


شان حیدر علوی

No comments:

Post a Comment