یہی سچ ہے حقیت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے
ہمیں تم سے محبت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے
شب تاریک میں اکثر یہی محسوس ہوتا ہے
ہمیں تیری ضرورت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے
تیری زلفیں، تیری آنکھیں، یوں تیرا مسکرا دینا
قیامت ہی قیامت ہے، مگر ہم کہہ نہیں سکتے
میری بے چینیاں ہر پل یہ مجھ سے پوچھ لیتی ہیں
یہ سب کس کی بدولت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے
تیری قسمیں بھی جھوٹی تھیں تیرا وعدہ بھی جھوٹا تھا
پرانی تیری عادت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے
رقیبوں سے میرے ملنا یوں تیرا گفتگو کرنا
خیانت ہے خیانت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے
بیاں کس طرح ہو علوی ستم جو اس نے ڈھائے ہیں
بہت دشوار صورت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے
شان حیدر علوی
No comments:
Post a Comment