Tuesday, 30 November 2021

خام ہو سکتا ہے لاچار بھی ہو سکتا ہے

 خام ہو سکتا ہے لاچار بھی ہو سکتا ہے

یہ نکمّا تجھے درکار بھی ہو سکتا ہے

وقتِ وحشت ہے مجھے حسن کی خیرات نہ دے

ایسی بے زاری میں انکار بھی ہو سکتا ہے

نیتاً بھی نظر اٹھ سکتی ہے تیری جانب

اور یہ سلسلہ خودکار بھی ہو سکتا ہے

یہ جو بے نظم مرکب ہے مِری سوچوں کا

نظم ہو جائے تو شہکار بھی ہو سکتا ہے

کوچۂ عشق سے محتاط گزر اے نادان

طے شدہ راستہ بے کار بھی ہو سکتا ہے

خود کو برداشت کی طاقت سے تہی مت رکھیو

ضعف یہ باعثِ پیکار بھی ہو سکتا ہے

گاؤں سے بھاگا ہوا بھوک کا مارا گیڈر

شہر میں شیر کا اوتار بھی ہو سکتا ہے


عقیل اختر

No comments:

Post a Comment