خام ہو سکتا ہے لاچار بھی ہو سکتا ہے
یہ نکمّا تجھے درکار بھی ہو سکتا ہے
وقتِ وحشت ہے مجھے حسن کی خیرات نہ دے
ایسی بے زاری میں انکار بھی ہو سکتا ہے
نیتاً بھی نظر اٹھ سکتی ہے تیری جانب
اور یہ سلسلہ خودکار بھی ہو سکتا ہے
یہ جو بے نظم مرکب ہے مِری سوچوں کا
نظم ہو جائے تو شہکار بھی ہو سکتا ہے
کوچۂ عشق سے محتاط گزر اے نادان
طے شدہ راستہ بے کار بھی ہو سکتا ہے
خود کو برداشت کی طاقت سے تہی مت رکھیو
ضعف یہ باعثِ پیکار بھی ہو سکتا ہے
گاؤں سے بھاگا ہوا بھوک کا مارا گیڈر
شہر میں شیر کا اوتار بھی ہو سکتا ہے
عقیل اختر
No comments:
Post a Comment