کوچۂ سنگ ملامت کے سب آثار کے ساتھ
آ گئے دشت میں ہم بھی در و دیوار کے ساتھ
دشت وحشت نے مِرے نوچ لی شب کی پوشاک
توڑ دی پاؤں کی زنجیر بھی جھنکار کے ساتھ
میری تنہائی میں اک وجد کی کیفیت ہے
رقص کرتا ہوں میں اک عالم اسرار کے ساتھ
گونجتا ہے مِرے سینے کے نہاں خانے میں
سانس لیتا ہے کوئی وقت کی رفتار کے ساتھ
کاٹ ڈالوں گا میں خود اپنی انا کی شہ رگ
آج خود اپنے مقابل ہوں میں تلوار کے ساتھ
دن تو خوابوں سے الجھنے میں گزر جاتا ہے
رات کٹ جاتی ہے آرام سے آزار کے ساتھ
جس کو دنیا نے بھی بے کار سمجھ رکھا تھا
میں نے سیکھا ہے بہت کچھ اسی بیکار کے ساتھ
نازنینان خوش اندام کا شاعر ہوں میں
بیٹھ کے دیکھ کبھی شاہد طرار کے ساتھ
شاہد کمال
No comments:
Post a Comment