رتجگوں کا مارا وقت
صدیوں کا سفر طے کر کے
وقت کے دروازے پر پہنچی تو معلوم ہوا
رتجگوں کا مارا وقت
دن چڑھے تک سو رہا ہے
وہ جو کبھی رکا نہیں
کسی کے آگے جھکا نہیں
میرے آنے سے پہلے اسے نیند کیوں آ گئی
ہتھیلیوں پہ دستکوں کے ہزارہا نشان ہیں
اور اسے خبر نہیں
شکستگی سمیٹ کر پاؤں میں باندھ لائی ہوں
اب آبلوں میں سکت نہیں
یہ مسافت بھی رائیگاں نہ جائے کہیں
مجھے وقت کو جگانا ہے اور اسے بتانا ہے
کہ میں نے عمر کے جس تندور میں
اپنے دکھ دابے تھے
وہ پھر سے اگنی مانگ رہا ہے
نیندیں اب تک سلگ رہی ہیں
عالیہ مرزا
No comments:
Post a Comment