Sunday, 28 November 2021

رتجگوں کا مارا وقت سو رہا ہے

 رتجگوں کا مارا وقت


صدیوں کا سفر طے کر کے

وقت کے دروازے پر پہنچی تو معلوم ہوا

رتجگوں کا مارا وقت

دن چڑھے تک سو رہا ہے

وہ جو کبھی رکا نہیں

کسی کے آگے جھکا نہیں

میرے آنے سے پہلے اسے نیند کیوں آ گئی

ہتھیلیوں پہ دستکوں کے ہزارہا نشان ہیں

اور اسے خبر نہیں

شکستگی سمیٹ کر پاؤں میں باندھ لائی ہوں

اب آبلوں میں سکت نہیں

یہ مسافت بھی رائیگاں نہ جائے کہیں

مجھے وقت کو جگانا ہے اور اسے بتانا ہے

کہ میں نے عمر کے جس تندور میں

اپنے دکھ دابے تھے

وہ پھر سے اگنی مانگ رہا ہے

نیندیں اب تک سلگ رہی ہیں


عالیہ مرزا

No comments:

Post a Comment