ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا ہے بہت
رات تاریک سہی ایک ستارا☆ ہے بہت
درد اٹھتا ہے جگر میں کسی طوفاں کی طرح
تب تِری یادوں کے دامن کا کنارا ہے بہت
ظلم جس نے کئے وہ شخص بنا ہے منصف
ظلم پر ظلم نے مظلوم کو مارا ہے بہت
راہ دشوار ہے پگ پگ پہ ہیں کانٹے لیکن
راہ رو کے لئے منزل کا اشارا ہے بہت
اس کو پانے کی تمنا ہی رہی جیون بھر
دور سے ہم نے مسرت کو نہارا ہے بہت
فاصلے بڑھتے گئے عمر بھی ڈھلتی ہی گئی
وصل کا خواب لئے وقت گزارا ہے بہت
ہونٹ خاموش تھے اک آہ بھی ہم بھر نہ سکے
بارہا دل نے مگر تم کو پکارا ہے بہت
جھوٹی تعریف سے لگتا ہے بہت ڈر مونا
میٹھی باتوں نے ہی شیشے میں اتارا ہے بہت
ایلزبتھ کورین مونا
No comments:
Post a Comment